تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم مالی لین دین

سبق: ہبہ ( كسی آدمی كا بلاعوض اپنے مال كا مالك بنادینا)

ہم اس درس میں ہبہ كے مفہوم اور اس سے جڑے بعض احكام كی معرفت حاصل كریں گے،

  • ہبہ كا مفہوم اور اس كی بعض حكمت كی معرفت۔
  • ہبہ سے جڑے ہوئے بعض شرعی احكام كی معرفت۔
  • اللہ سے اجر كی تلاش میں ہبہ كرنے پر حوصلہ افزائی كرنا۔

بیشك اللہ سخی ہے اور وہ جود سخا كو پسند فرماتا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بڑے سخی تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے ، اور اس كا بدلہ دیتے تھے ، اور اس كے قبول كرنے كی دعوت دیتے تھے ، اور لوگوں كو اس كی ترغیب دیتے تھے ، اور نوازش كرنا آپ كے محبوب ترین امور میں سے تھا ۔

ہبہ كی تعریف

بروقت بلاعوض كسی كو كسی چیز كا مالك بنانا ۔

ہمارا قول: تمليك (مالك بنانا)؛یہ اس بات كی طرف اشارہ ہے كہ ہبہ كا عقد تملیك كے عقود میں سے ہے ۔

عین سے مراد ؛مطلق سامان ہے ، اور اس میں مالیاتی اور دیگر اثاثے بھی شامل ہیں ۔

اور "تمليك العين"(عین كا مالك بنانا) كی اصطلاح نے "هبة المنافع"(ہبہ كا منافع) كو دو سبب سے خارج كردیا ہے:

١
منافع كوبعض فقہاء كے نزدیك مال كا نام نہیں دیا جاتا۔
٢
اور ہبہ المنافع كا فقہاء كے نزدیك ایك خاص اصطلاح ہے ، جسے عاریہ (ادھار)كہا جاتا ہے ۔

اور "التمليك"(مالك بنانے) كی قید سے قرض سے براءت معافی نكل گئی، اور اگر یہ لفظ ہبہ سے ہوتا تو معافی (قرض سے )ساقط تسلیم كی جاتی ۔

اور ہبہ كے لئے ہدیہ اور عطیہ كا لفظ بھی بولا جاتا ہے ، اور یہ تمام نیكی اور احسان ، صلہ رحیمی اور بھلائی كے باب میں شامل ہیں ،

یبہ كا حكم

ہبہ مستحب ہے ، كیونكہ اس سے دلوں كو جوڑا جاتا ہے ، اور اس سے اجر وثواب كا حصول ہوتا ہے، اور اس سے الفت و محبت ملتی ہے ، اور اس كے مستحب ہونے پر قرآن عزیز ، سنت شریفہ اور اجماع امت دلالت كرتے ہیں ۔

شريعت نے ہبہ پر ابھارا ہے كیوكہ اس میں نفس كو بخل ، كنجوسی اور طمع جیسی رذالت سے پاك كرنا ہے،اور دلوں كو جوڑنا ہے ، اور لوگوں كے درمیان محبت كی گرہ كو مضبوظ كرنا ہے ، اور بالخصوص جبكہ اس كا تعلق رشتہ دار یا پڑوسی یا عداوت والے شخص سے ہو جس سے كہ جھگڑے ہو چكے ہوں ،نفرت پڑ گئی ہو اور ایك دوسرے كے پیچھے پڑے ہوں ، اور صلہ رحمی منقطع ہوگئی ہو ، تو ہبہ اور ہدیہ یہ دونوں دل كی صفائی كے لئے آتے ہیں ، اور لوگوں كے درمیان پیدا ہونے والی تفریق كو زائل كردیتے ہیں ، اور جس نے اللہ كی رضا كی خاطر كئی چیز كا ہبہ كیا تو وہ ضروراجرو ثواب پائےگا۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا : "كَانَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقْبَلُ الهَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيْهَا". (البخاري 2585).( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرما لیا کرتے۔ لیکن اس کا بدلہ بھی دے دیا کرتے تھے)۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أجودَ الناس، وكان أجود ما يكون في رمضانَ حين يلقاه جبريل، وكان يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن، فَلَرسول الله صلى الله عليه وسلم أجودُ بالخير من الريح المُرسَلة» (البخاري 6، ومسلم 2308).(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے)

ہبہ كے اركان

علماء نے اتفاق كیا ہے كہ ایجاب ہبہ كے اركان میں سے ہے ، اور اس كے غیر كے متعلق اختلاف كیا ہے ، اور صرف ایجاب كے لفظ سے ہبہ واقع ہو جائے گا ، (یہ ہبہ كرنے والے كی طرف سے ہبہ كے صادر ہونے پر دلالت كرتا ہے )لیكن جس كے لئے ہبہ كیا گیا ہے جب تك وہ اسے قبول اور اپنے قبضہ میں نہ لے لے تب تك وہ اس كا مالك نہ ہوگا ، اور قبولیت و قبضہ اثرات كو مرتب كرنے كے لئے ہیں نہ كہ عقد قائم كرنے كے لئے ۔

ہبہ كی شرطیں

١
ہبہ كرنے والا تبرع والوں میں سے ہو ،
٢
ہبہ كرنے والا مالك یا شریعت كی روشنی اسے اس كی اجازت ملی ہو ۔
٣
ہبہ كرنے والا راضی ہو، اسے لئے زبردستی كئے گئے شخص پر عقد كی كوئی چیز لازم نہ ہوگی ،
٤
جس كے لئے ہبہ كیا گیا ہو اس میں مالك بننے كی صلاحیت كی شرط لگائی جائے گی ، اس لئے جس كامالك بننا صحیح نہ اس كے لئے ہبہ درست نہیں ، اور قابلیت مكلف بنانے سے ہوگی ، غیر مكلف كا اس كا ولی اسے قبول كرے گا،
٥
جس كے لئے ہبہ كیا جائے اس كا موجود ہونا ہے ، كیونكہ ہبہ تملیك ہے ، اور معدوم كے لئے تملیك ممتنع ہے ۔
٦
اور جس كے لئے ہبہ كیا جائے اس كے متعین ہونے كے لئے شرط لگائی جائے گی ، اگر جس كے لئے ہبہ كی جارہی ہے وہ غیر متعین ہے جیسے كہ ہبہ كرنے والا یوں كہے :میں نے اپناگھر فلاں كے لئے یا اس كے بھائی كے لئے ہبہ كیا ، تو ہبہ كے صحیح ہونے كے بارے میں اس میں فقہاء میں اختلاف ہے ۔
٧
ہبہ ان چیزوں میں ہو جس سے نفع اٹھانا جائز ہے ، گرچہ اس كا بیچنا جائز نہ ہو ، اس لئے ہبہ معاوضات سے وسیع معنی ركھتا ہے ۔۔
٨
ہبہ كی جانے والی چیز موجود ہو ، اس لئے كہ معدوم میں تصرف كرنا اس كے وجود سے معلق ہے ، اور ہبہ كا نامعلوم ہونا اور معدوم ہونا اس وقت درست ہے جب كہ اس كا وجود متوقع ہو ۔

ہبہ كی جانےوالی چیز كے معلوم غیرمجہول ہونے كی شرط كے بارے میں علماء نے اختلاف كیا ہے ، اور یہ شرط عائد كرنے میں بھی علماء كے درمیان اختلاف ہے كہ ہبہ كی گئی چیزتقسیم شدہ ہو مشترك نہ ہو ۔

حصول مفاد كے لئے ہدیہ و ہبہ كا حكم

جس نے كسی اہلكار یا ملازم یا اس كے علاوہ كو مفادكے حصول كے لئے ہدیہ كیا جس كا وہ حقدار ہی نہیں ہے تو یہ ہدیہ دینے اور ہدیہ لینے والے دونوں كےلئے حرام ہے ، كیونكہ یہ رشوت كے قبیل سےہے اور اس كے لینے و دینے والے دونوں ملعون ہیں ۔

اور اگر اس كے ظلم سےبچنے كےلئے اسے ہدیہ دے یا اپنا واجبی حق حاصل كرنے كےلئے اسے ہدیہ دے ، تو یہ ہدیہ لینے والے كے لئے حرام ہے لیكن اپنے حق كی حفاظت اور لینے والے كے شر كو دور كرنے كے لئے ہدیہ دینے والے كے لئے یہ جائز ہے۔

ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا: استعمل النبي صلى الله عليه وسلم رجلاً من بني أسد يقال له ابن الأُتَبِيَّة على صدقة، فلما قدم قال: هذا لكم وهذا أهدي لي. فقام النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: "ما بال العامل نبعثه فيأتي يقول: هذا لك وهذا لي، فهلَّا جلس في بيت أبيه وأمه، فينظر أيُهدى له أم لا. والذي نفسي بيده، لا يأتي بشيء إلا جاء به يوم القيامة يحمله على رقبته؛ إن كان بعيراً له رُغاء، أو بقرة لها خُوار، أو شاة تيعر"، ثم رفع يديه حتى رأينا عفرتي إبطيه. "ألا هل بلغت؟" ثَلاثاً.(البخاري 7174، ومسلم 1832).(بنی اسد کے ایک شخص کو صدقہ کی وصولی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحصیلدار بنایا، ان کا نام ابن الاتیتہ تھا۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ آپ لوگوں کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں دیا گیا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، سفیان ہی نے یہ روایت بھی کی کہ ”پھر آپ منبر پر چڑھے“ پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا کہ اس عامل کا کیا حال ہو گا جسے ہم تحصیل کے لیے بھیجتے ہیں پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے۔ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر بیٹھا رہا اور دیکھا ہوتا کہ اسے ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عامل جو چیز بھی (ہدیہ کے طور پر) لے گا اسے قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ ہو گا تو وہ اپنی آواز نکالتا آئے گا، اگر گائے ہو گی تو وہ اپنی آواز نکالتی آئے گی، بکری ہو گی تو وہ بولتی آئے گی، پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے۔ یہاں تک کہ ہم نے آپ کے دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے پہنچا دیا! تین مرتبہ یہی فرمایا۔) «خوار‏» گائے کی آواز «الرُّغاء» اونٹ كی آواز «العُفرة» سفیدی زردی مائل ،(تَيْعَر) چیختی ہے اور تیز آواز نكالتی ہے۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں